مادہ پرستی اور ٹیکنالوجی کی پوجا
ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کے مقابلے میں آپ اللہ کی نصرت اور تائید کی گفتگو کر کے دیکھیں، ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کے بت کے پجاری
یوں پنجے جھاڑ کر آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے جیسے آپ نے ان کے خدا کو برا بھلا کہہ دیا ہو۔ گزشتہ دنوں توکّل علی اللہ اور جذبۂ ایمانی پر گفتگو شروع ہوئی تو مخالفت میں کتنے لکھاری میدان میں کود پڑے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کبھی بھی اپنے اس ٹیکنالوجی کے بت کی شکست برداشت ہی نہیں کر سکتے۔
اگر کوئی عالمی طاقت کسی نہتی قوم سے شکست کھا جائے تو پہلے تو اس شکست کو شکست ہی تسلیم نہیں کریں گے۔ ڈھیلا سا منہ بنا کر کہیں گے وہ عالمی طاقت خود وہاں سے جانا چاہتی تھی، اس بے آب و گیاہ علاقے میں انھوں نے کیا لینا۔ اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ پھر وہاں لینے کیا آئے تھے، اپنے فوجی مروانے؟ اپنی شاندار ٹیکنالوجی کا مذاق اڑوانے؟ ایسے میں جواب دیں گے، کیا حاصل کر لیا اس قوم نے بڑی طاقت سے لڑ کے، خود کو ہی تباہ کروا لیا۔ ایسی جیت کا کیا فائدہ۔ چرچل کا برطانیہ تباہ ہو جائے لیکن وہ جنگ جیت جائے تو چرچل ہیرو۔ وہاں کوئی یہ گفتگو نہیں کرتا کہ ایسی لڑائی اور جیت کا فائدہ جس میں ملک ہی تباہ ہو جائے۔ آخر ’’حکمت عملی‘‘ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
ان کے نزدیک کسی ایسی طاقت کی فتح نا مکمن ہے، جس کی قوت انسانی ذہن کے ادراک میں نہ آ سکے۔ جہاں کوئی کمزور فتح یاب ہونے لگتا ہے تو اسے اللہ کی نصرت سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ ’’شاندار حکمتِ عملی‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ غزوہ احد میں وہ شکست کو اللہ کی طرف سے مسلمانوں کا امتحان تصور نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جنگی حکمت عملی پر صحابہ کا عمل نہ کرنا ہے۔ لیکن میرا اللہ جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور جسے علم ہے کہ دلوں میں کونسا کوڑھ چھپا ہوا ہے اس نے ٹیکنالوجی اور مادہ پرست لوگوں کا قرآنِ پاک میں کیسا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
اُحد کی شکست کے بعد چند مسلمان جو نئے نئے داخلِ اسلام ہوئے تھے یہ سوچنے لگے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان موجود ہیں اور پھر بھی ہمیں شکست ہو گئی۔ ایسے میں اللہ تبارک و تعالی نے سورۃ آل ِعمران میں اس شکست کی وجوہات پر کئی آیات نازل کیں۔ اللہ فرماتا ہے‘‘ اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلے میں پسپا کر دیا تا کہ تمہاری آزمائش کرے، اور حق یہ کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے (آل عمران 152)اللہ نے اُحد کی شکست کی ایک ہی وجہ بتائی اور وہ تھی چند مسلمانوں کی طلبِ دنیا کی خواہش کی لغزش تھی۔ ایک اور جگہ کسقدر واضح طور پر اللہ نے اُحد کی لڑائی کے بارے میں بتایا کہ مسلمانوں پر یہ مصیبت اللہ کی اجازت سے نازل ہوئی۔
اللہ فرماتا ہے ’’جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے کہ تم میں سے مومن کون ہیں اور منافق کون (آل عمران166) اُحد کے اس معرکے کے بعد مسلمانوں کا ایمان اللہ کی ذات پر اور مستحکم ہوگیا تھا اور اسی پختہ ایمان کے ساتھ ہی وہ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سربراہی میں کفار مکہ کا پیچھا کرنے کے لیے جمرا الاسد تک گئے تھے۔
اُحد کی شکست کے بعد نازل ہونے والی تمام آیات اللہ کا یہ اصول بتاتی ہیں کہ فتح و نصرت نہ افرادی قوت سے ہے اور نہ ہی ٹیکنالوجی سے بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مہربانی ہے۔ اسی شکست کے بارے اللہ فرماتا ہے کہ انسان کی موت سے حفاظت بھی اللہ کی مرضی و منشاء پر ہی منحصر ہے۔ اُحد کے بعد منافقین یہ طعنہ دیتے تھے کہ اگر یہ شہید ہونے والے لوگ جنگ کے لیے نہ نکلتے تو آج زندہ ہوتے۔ اللہ نے انھیں اسی سورۃ آل عمران میں جواب دیا ہے۔ ’’کہہ دو کہ، اگر تم گھروں میں ہوتے تب بھی جن کا قتل ہوتا مقدر میں لکھا جا چکا تھا وہ خود باہر نکل کر اپنی اپنی قتل گاہوں تک پہنچ جاتے (آل عمران 155)‘‘